ابرار احمد ہیں کون اور ان کا کرکٹ کھیلنے کا سفر کب شروع ہوا اور اس دوران انھیں کتنی مشکلات جھیلنی پڑیں


                                    اکستان کی جانب سے ملتان ٹیسٹ میں ڈیبیو کرنے والے ’مسٹری سپنر‘ ابرار احمد نے انگلینڈ کے بلے بازوں کو آغاز میں ہی مشکل میں ڈال دیا ہے اور اپنے پہلے ہی میچ میں سات وکٹیں حاصل کر لی ہیں۔ابرار ڈیبیو میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے والے 13ویں پاکستانی بولر ہیں۔

اس سے قبل 1998 میں شاہد آفریدی،محمد سمیع، 2003 میں شبیر احمد، 2007 میں یاسر عرفات، 2010 میں وہاب ریاض اور تنویر احمد، 2018 میں بلال آصف جبکہ 2021 میں نعمان علی یہ کارنامہ سرانجام دے چکے ہیں۔

انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے پاکستان ٹیم کے سکواڈ کا اعلان ہوتے ہی ابرار احمد خاص طور پر سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایتی سپنر نہیں بلکہ وہ لیگ بریک گگلی کےساتھ ساتھ کیرم بال بھی کر لیتے ہیں۔

آج انھوں نے انگلینڈ کے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے ٹاپ سیون بلے بازوں کو اپنی مسٹری سپن خصوصاً کیرم بال سے بیٹ کیا اور ان کی جانب سے کاؤنٹر اٹیک کے باوجود اپنی لینتھ پر بولنگ کرتے رہے۔

خیال رہے کہ ابرار احمد کو راولپنڈی ٹیسٹ میں شامل نہ کرنے پر پاکستان کی مینجمنٹ کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابرار احمد نے اس سیزن کی قائداعظم ٹرافی میں 43 وکٹیں حاصل کی ہیں جو اس سال کسی بھی بولر کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں اور یہی کارکردگی ان کی پاکستانی ٹیم میں پہلی بار شمولیت کا سبب بنی ہے۔

ان پر زاہد محمود کو ترجیح دینے کے حوالے سے جب ایک پریس کانفرنس میں ثقلین مشتاق سے سوال پوچھا گیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم انصاف کرنا چاہتے تھے۔

 ایک طرف ایک لڑکا (زاہد) جو ٹیم کے ساتھ ایک سال سے ہے اور کئی مرتبہ ٹیم میں کھیلنے کے بہت قریب بھی آیا لیکن اس کو موقع نہیں ملا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابرار نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھا پرفارم کیا ہے تاہم ہم لائن نہیں توڑنا چاہتے تھے اور کسی کو فاسٹ ٹریک نہیں کرنا چاہتے تھے جب ایک کھلاڑی ایک سال سے انتظار کر رہا ہے۔

 زاہد ویٹنگ لسٹ میں تھا اس لیے ہم نے اس کے ساتھ انصاف کرنے کا فیصلہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیزن میں  ابرارنے 43 میں سے 40 وکٹیں راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں 17 کی اوسط سے حاصل کی تھیں۔

لیگ اسپنر  ابرار نے ٹیسٹ میچ کے پہلے روز انگلش ٹیم کے 5 کھلاڑیوں زیک کرولی 19، بین ڈکٹ 63، اولی پوپ 60، جو روٹ 8، ہیری بروک 9 پر آؤٹ کیا۔ اور ان میں جو روٹ کے علاوہ تمام ہی بلے باز پنڈی ٹیسٹ میں سنچری سکور کر چکے ہیں۔

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ابرار احمد ہیں کون اور ان کا کرکٹ کھیلنے کا سفر کب شروع ہوا اور اس دوران انھیں کتنی مشکلات جھیلنی پڑیں۔

24 سالہ ابرار احمد کے والد کا تعلق شنکیاری سے ہے جبکہ ان کی والدہ لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔

والد کا ٹرانسپورٹ کا کام ہے اور یہ فیملی کافی عرصے سے کراچی میں مقیم ہے۔

ابرار احمد کی پیدائش کراچی کی ہے انھوں نے کرکٹ اپنے علاقے جہانگیر روڈ کے گلی محلے کی ٹینس بال سے شروع کی۔

ابرار احمد بتاتے ہیں ’میرے بڑے بھائیوں کو کرکٹ کا شوق تھا۔ وہ نشتر پارک اور دوسرے میدانوں میں جا کر کھیلا کرتے تھے میں وہاں جا کر بیٹھ جاتا اور انھیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔

پھر وہ وقت بھی آ گیا جب میں کھیل رہا تھا اور بھائی مجھے دیکھ رہے تھے۔

کراچی کے کئی نوجوان کرکٹرز کی طرح ابرار احمد کے ابتدائی کریئر میں کوچ محمد  مسرور کا عمل دخل نمایاں ہے جنھوں نے ان میں چھپا ہوا ٹیلنٹ دیکھ کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔

محمد مسرور کے کہنے پر ہی راشد لطیف نے ابرار احمد کو اپنی کرکٹ اکیڈمی میں بھی شامل کیا تھا۔

ابرار احمد کہتے ہیں ’میں نے سنا تھا کہ جب آپ کسی اکیڈمی میں جا کر کھیلتے ہیں تو آپ کو فیس وغیرہ کے پیسے دینے پڑتے ہیں لیکن ڈسٹرکٹ کی سطح پر میری بولنگ اتنی اچھی تھی کہ اس زمانے میں مجھ سمیت تین چار کرکٹرز ایسے تھے جنھیں راشد لطیف اکیڈمی کی طرف سے ہر ماہ سات ہزار روپے ملتے تھے۔

ابرار احمد بتاتے ہیں  کہ اگرچہ میرے بڑے بھائی بھی کرکٹ کھیلتے تھے اور مجھے بھی بہت شوق تھا لیکن میرے والد چاہتے تھے کہ میں پڑھائی پر توجہ دوں مگر میں کرکٹ میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔

جب میرا نام ڈسٹرکٹ کی ٹیم میں آیا تو میں نے اپنے کزن شفیق سے کہا کہ آپ میرے والد سے بات کریں کہ وہ مجھے کھیلنے کی اجازت دے دیں۔ میرے کریئر کا وہ سب سے اہم لمحہ تھا جب میرے کزن نے والد کو قائل کرلیا۔

انھوں نے میرے والد سے کہا کہ ابرار کو ایک سال دے دیں اس دوران اگر وہ کچھ کرلیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ آپ کے کہنے پر عمل کر لے گا۔

ابرار احمد کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ صرف محدود اوورز کی کرکٹ میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ کوچ مسرور ہی تھے جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ ابرار احمد ریڈ بال کرکٹ میں بھی کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں تاہم کراچی کے ایک سلیکٹر انھیں موقع دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے اور انھوں نے راشد لطیف سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ محمد مسرور جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے چنانچہ وہ ریڈبال کی ٹیم میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

ابرار احمد کہتے ہیں میں نے پروفیشنل کرکٹ میں آنے کے بعد ویسٹ انڈیز کے سنیل نارائن اور سری لنکا کے اجانتھا مینڈس کی وڈیوز باقاعدگی سے دیکھی ہیں کہ یہ دونوں بولرز کس طرح بیٹسمینوں کو ٹریپ کرتے ہیں۔

کوچ محمد مسرور کہتے ہیں کہابراراحمد کی انگلیوں میں بڑی جان ہیں اور وہ یکساں مہارت سے گیند کو اندر بھی لے آتے ہیں اور باہر بھی نکالتے ہیں جیسا کہ اجانتھا مینڈس اور افغانستان کے مجیب الرحمن کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک مکمل پیکج ہیں انھیں وکٹیں لینے کا فن خوب آتا ہے۔