پیشے کا انتخاب | تحریر: بلال انجم کمبوہ

 


حالیہ دنوں میں ایم بی بی ایس کے داخلے کا ٹیسٹ تھا، اس کا رش دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کچھ لکھا جائے کہ میڈیکل سائنس کے علاؤہ بھی کئی اور شعبہ جات ہیں جن میں داخلہ لے کر اپنا مستقبل سنوارا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے سب سے اہم چیز کیریئر کونسلنگ ہے۔

کیرئیر کونسلنگ ایک ایسا عمل ہے جو آپ کو خود کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے اور اس کا مقصد آپ کو آپ کی صلاحیت اور رجحان کے مطابق پیشے کے انتخاب میں مدد فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ اس کا مقصد صرف فیصلہ سازی میں آپ کی مدد کرنا نہیں ہے بلکہ یہ آپ میں مہارت پیدا کرتا ہے اور آپ کو وہ نالج دیتا ہے جس کے زریعے آپ اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ لینے کے قابل ہو جاتے ہیں اور مطمئن اور خوشحال زندگی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔

کیرئیر ڈویلپمنٹ ایک طویل عمل ہے ۔ یہ آپ کو معلوم ہو یا نہ ہو بنیادی طور پر یہ آپ کی پیدائیش سے ہی شروع ہوتی ہے ۔ بہت سے ایسے عوامل ہیں جو آپ کی کیرئیر ڈویلپمنٹ پر اثر ڈالتے ہیں ان عوامل میں آپ کی دلچسپی ، صلاحیت ، شخصیت ،ویلیوز , پس منظر اور حالات شامل ہیں ۔

آج کل نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سوچتے اور ہیں کرتے کچھ اور ہیں یا ان کے ساتھ کچھ اور ہوتا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔ اس کی وجہ 90 فیصد طالب علم اپنے رجحانات کے مطابق کیرئیر منتخب کرنے کے حوالے سے فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں ۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جو کئی طالب علموں کے خوابوں کو چکنا چور کرتی ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں طلباء یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں لیکن ان میں بہت ہی کم ایسے ہیں جن کا انتخاب کردہ شعبہ ان کی شخصیت ،مہارت اور رجحان کے مطابق ہوتا ہے لیکن اکثر طالب علموں کا منتخب کردہ شعبہ ان کا پسندیدہ شعبہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس طرح کارکردگی نہیں دیکھا پاتے ہیں جس کا وہ شعبہ تقاضا کرتا ہے ۔

اس مسئلے سے نمٹنے کا واحد حال مناسب کیرئیر کونسلنگ ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کیرئیر کونسلنگ یعنی شعبہ زندگی کے انتخاب کا کوئی خاص نظام موجود نہیں ہے ۔ یہاں زیادہ تر طالب علم کسی کے کہنے پر ، کسی سے سن کر یا کسی کو دیکھ کر اپنے شعبہ زندگی کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کی آدھی زندگی گزرنے کے بعد ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلط شعبہ منتخب کیے ہیں وہ کوئی اور کام اس سے بہتر طور پر کر سکتے تھے ۔

ایک کامیاب معاشی اور معاشرتی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ ایک طالب علم کو اس شعبے میں جانے دیا جائے جو اس کی intrest، skills اورaptitude کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو ۔ہمارے یہاں اس چیز کو پس پشت ڈال کر طالب علم کی زندگی کا فیصلہ والدین کرتے ہیں ۔ والدین بچوں کے رجحان اور پسند  کو پاؤں تلے روند کر اپنے پسند کے شعبے کو ان پر مسلط کرتے ہیں جو ان کے مستقبل کو برباد کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔ہماری مزاج میں کاپی/ نقل کرنا زہر بن کر سرایت کر چکی ہے ۔ شعبہ زندگی کے انتخاب میں بھی کسی دوسرے کو دیکھ کر ان کے منتخب کردہ شعبے کا انتخاب کرتے ہیں حالانکہ اس شعبے کا آپ کی aptitude کے ساتھ دور تک کا بھی تعلق نہیں بنتا ہے اور نتیجتاً بعد میں پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ملتا ہے ۔

ان مسائل سے نمٹنے کا واحد حل کیرئیر کونسلنگ ہی ہے ۔ اگرچہ ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر کیرئیر کونسلنگ کا کوئ باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے لیکن پھر بھی پرائیوٹ سیکٹر میں اس حوالے سے کچھ کام ہورہا ہے ۔ سکول جانے والے بچوں کے لئے اساتذہ بھی اپنے تجربے کی بنیاد پر اس حوالے سے رہنمائی کر سکتے ہیں ۔ باقی آج کل کی جدید دور میں یہ باقاعدہ ایک سائنسی عمل بن گئی ہے ۔ جس میں سائنسی بنیادوں پر بچوں کی دلچسپیوں ، مہارت اور رجحان کو معلوم کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ بچوں کی شخصیت کو بھی ماپنے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے جو سائیکومیٹرک ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے ۔ اس کے بعد ان کو ان کی مزاج اور رجحان کے مطابق شعبے کے انتخاب کے حوالے سے رہنمائی کی جاسکتی ہے ۔

مگر پاکستان میں بد قسمتی سے بچوں پہ چیزیں تھوپ دی جاتی ہیں جس وجہ سے بچہ اپنے شعبے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ میرے بعض دوست جو آرٹس میں جانا چاہتے تھے والدین کے کہنے پر سائنس میں چلے گئے اور اس وجہ سے ان کی زندگی برباد ہو گئی، ہمارے ہاں نہ صرف ان پڑھ طبقہ ایسے کرتا ہے بلکہ پڑھا لکھا طبقہ بھی بچوں پہ مضمون تھوپ رہا ہے نہ ان کے پسندیدہ شعبے میں بھیجا جاتا ہے۔

اس وجہ سے نہ صرف بچہ زہنی مریض بن جاتا ہے بلکہ بعض بچے خودکشی کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔

ہمارے انجنئیر، ڈاکٹر کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے اور باقی شعبہ جات میں خاصی طور پہ توجہ نہیں دی جاتی۔

ایک اہم مسئلہ ملکی و قومی سطح پہ وسائل کی عدم دستیابی ہے جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان کامیاب نہیں ہو پارہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے نوجوانوں کی تربیتی ورکشاپس مذاکروں مباحثوں کا اہتمام کیا جائے جس سے سکول کالج کی سطح پہ بچوں کی تربیت کی جائے۔